نہ نظر میں کوئی حیا رہی
نہ جہاں میں اہل علم رہے
نہ عمل میں کوئی وفا رہی
نہ جذب و مستی کا ویسا سُرور ہے
نہ مقبول کوئی دعا رہی
فطرتوں میں محبت نہ باقی رہی
نہ وہ عفت مآب صبا رہی
نہ دلوں میں الفت کے جذبے رہے
نہ محبت کی ویسی ادا رہی
اے خدا !
پھر سے ویسی ہوائے اخوّت چلے
پھر سے ویسی صدائے محبت اٹھے
پھر زمانہ وہی چال چلنے لگے
جس میں ہر اک محبت میں پلنے لگے
پھر مسافر پورے گاؤ ں کا مہماں بنے
پھر قدم سوئے منزل لپک کر اٹھے
پھر ستاروں کی محفل زمیں پر جمے
پھر ہر اک ہاتھ دستِ ہنر بن اٹھے
جس سے سارے زمانے کا دکھ مٹ سکے
پھر سے ہر اک پرایا بھی اپنا لگے
پھر سے نیکی زمیں پر پنپنے لگے
کاش انساں کی قسمت سنورنے لگے